Waseem khan

Add To collaction

08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -غلط فہمی قسط13


غلط فہمی
از مشتاق احمد
قسط نمبر13
آخری قسط

شاجین اٹھ کر ماریہ کی طرف بڑھا۔ جو بلیک پینٹ شرٹ میں بہت سندر سمارٹ لگ رہی تھی۔
 بہت خوبصورت ہو تم۔ شاجین نے فنگر اسکی گال پے پھیری جسکو ماریہ نے جھٹک دیا۔
ٹکر کی ہو خوب جمے گی ہماری۔ ماریہ کے بازو پر ہاتھ رکھ کر اسکو یکدم کھینچ کے پاس کیا ماریہ کے گمان میں بھی ایسا نہ تھا۔ 
اس کے سینہ سے جا لگی۔ شاجین نے اسکو بانہوں میں بھر لیا۔ 
ماریہ چیخنے لگی تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجہے چھونے کی۔ چھوڑو مجہے اسکو کندھے پر مارنا شروع کر دیا۔
 اب نہیں چھوڑ سکتا۔ تم ملکہ ہو میری۔ چھوڑ دو میری بیوی کو۔
 امجد آگے بڑھا تو شاجین کے آدمییوں نے اس پے بندوق تان لی۔ ضیاء کچھ کرنے کی ترکیب سوچ رہا تھا۔
صفا تو رہی نہیں میری جان کا کیا فائدہ۔ اگر اچھے کام میں لگ جائے تو آخرت سنور جائے گی۔
 لے جاؤ میری ملکہ کو اب یہ میری ہے۔شاجین کہ کر  جیسے مڑھا ضیاء نے دونوں بندوں کو گرا کر شاجین پر حملہ کر دیا۔ اور اسکو لیتا نیچے جا گرا۔ 
سب آدمی بھاگے ضیاء کو مارنے کہ شاجین نے ہاتھ کے اشارہ سے انکو روک دیا۔
 یہ میرا شکار ہے۔ سب سائیڈ پر ہو گئے۔وہ تینوں ان سب میں آزاد تھے ۔
مسلہ یہ تھا کہ ملک اجنبی تھا وہ شاجین کا علاقہ تھا جہاں اسکی حکومت تھی۔
  اسی کی ہر جگہ پہنچ تھی ۔ کمزور حیثیت میں تھے یہ تینوں اور ضیاء اور ماریہ ان دو نے تو بدلہ لینا ہی تھا تیسرا امجد شامل تھا تو صرف ماریہ کے لئے۔  
تھے تینوں فائٹر ضیاء امجد اوراب تو ماریہ بھی پر وہ سب اپنی سوچ کے مطابق آگے کا پلان ترتیب دے رہے تھے۔
 ایسے کہ تینوں کو نہیں پتہ تھا اپس کی سوچوں کا۔ شاجین نے ضیاء کے پیٹ میں مکا مارا۔
 ضیاء نے مار کھانی تھی کیوں کہ ماریہ ان کے قبضہ میں تھی۔شاجین منہ پیٹ ہر جگہ ضیاء کو مارے جا رہا تھا۔
 رکو ماریہ چیخی۔کمزور پر ہاتھ اٹھاتے ہو۔ اپنے بندوں کے سر پر ناچ رہے ہو۔
 انسے علیحدہ ہو کر مقابلہ کرو اسکا تم شاجین۔ 
جو حکم ملکہ۔۔۔۔ شاجین ہنسا۔ ہاہاہا۔
 پھر اسنے اپنے بندوں کو آرڈر دیا کہ کوئی کچھ نہیں کرے گا جو ہو جائے۔ 
ماریہ نے اسکی عزت نفس پر بات کر کے چال چلی تھی شاجین کو کمزور کرنے کی۔
 اب ضیاء بھی مقابلہ پر آ چکا تھا۔ ہر مار پر جو کھا بھی رہا تھا اور شاجین کو کھلا بھی رہا تھا صفا کا چہرہ گھوم رہا تھا۔ 
درد بڑھتا تو نئی طاقت جمع ہو جاتی۔ماریہ چپ تھی کیوں کے آخری بازی اسنے چلنے کا سوچ رکھا تھا۔
 اردو میں بولی آج صفا کا دن ہے۔ضیاء  آج تم ہار نہیں سکتے۔ لڑنا ہے اور جیتنا ہے ہم نے  ۔
سن رہے ہو نہ ضیاء تم۔ اسکو انجام تک پھنچانے کا دن آ گیا ہے۔ 
شاجین جسمانی طور پر کافی طاقتور تھا اور ماہر لڑاکا جس کی پوری زندگی اسی طرح گزر گئی تھی وہ لڑائی میں ضیاء سے جیت رہا تھا۔ 
اب ضیاء گر پڑا۔ نہیں ضیاء اٹھو۔ ماریہ چیخی۔ ماریہ کو غصہ آتا جا رہا تھا فورا ایک بندے کی بندوق چھین کر شاجین پر جا کے تانی ۔
چھوڑ دو ضیاء کو۔ 
ہاہاہا میری ملکہ یہ ہاتھ مارنے کے لئے نہیں بنے پیار کرنے کے لئے بنے ہیں۔ 
ماریہ نے بندوق کا زور ڈالا سنا نہیں میں نے کیا کہا ہے۔
 میں ہار گیا ملکہ۔۔۔ یہ کہ کر پیچھے ہٹا اور فورا ماریہ کو گرفت میں لے چکا تھا۔
 میری بھولی ملکہ۔ ہنس کر جھک رہا تھا ماریہ پر کہ امجد چلایا
 شاجین۔ 
شاجین نے سر اٹھا کر امجد کو دیکھا۔ 
چھوڑو اسکو۔ پستول کا رخ شاجین کی طرف تھا۔ اوہ میرے بچے کے بھی پر پرزے نکل اے ہیں۔ 
میں نے کہا چھوڑو اسکو۔ 
بندے آگے بڑھنے لگے تو شاجین نے روک دیا۔ 
شاجین کی توجہ امجد کی طرف گی تو ضیاء نے آہستہ سے گن اٹھا لی اور شروع ہو گیا بندوں کو مار گرانے میں ساتھ ماریہ بھی شروع ہو گئی ۔
بعض پر گولی اور بعض کو لاتوں اور ہاتھوں کی مار دے رہی تھی۔ 
ضیاء نے شاجین پر گولی چلا دی جو کے اس کے بازو پر جا لگی۔
 امجد چیخا ضیاء ماریہ کو لے کر بھاگو اور خیال رکھنا ماریہ کا۔ 
 میں انکو روکتا ہوں جلدی کرو اور سنو اس دفعہ دل کی نہیں دماغ کی سننا۔ آخری بار حسرت سے ماریہ کو دیکھا۔ 
بھاگو جلدی کرو۔ یہ کہ کر امجد شاجین سے گتھم گتھا ہو گیا۔
 ضیاء نے ماریہ کو پکڑ کر گھسیٹا میں نہیں جاؤں گی امجد کو چھوڑ کر۔ ماریہ رو رہی تھی۔ 
اسی لمحہ شاجین نے امجد کو گولی ماری۔ ماریہ چیخی امجد۔
 ضیاء نے اپنا ہاتھ ماریہ کی گردن کی طرف بڑھایا۔ اور فنگر کو جھٹکا دے کر بیہوش کر کے اسکو اٹھا کے بھگا باہر۔ 
ضیاء کو پتہ تھا امجد نے اپنی قربانی دینی تھی انکی خاطر۔ 
امجد زور سے اٹھا اور اسنے بھی گولی ماری شاجین کے پیٹ میں ۔
ضیاء بھاگتا جا رہا تھا۔ 
شاجین اگر تم زندہ رہ گئے تو میں آؤں گا واپس پھر یہاں تب اکیلا نہیں ہونگا اپنے عہدے کے ساتھ پہلے کی طرح آؤں گا۔
 اب جا رہا ہوں کیوں کے مجبوری ہے۔
 خدا تمہاری قربانی رائیگاں نہ کرے امجد میری دعا ہے۔ 
اب شاجین اور امجد دونوں آمنے سامنے تھے۔
 دونوں کے ہاتھ میں پستول تھے 
۔ ایک نے جیتنا تھا یا دونوں نے مرنا تھا۔ 
ایک ساتھ گولیاں چلی تھیں جو دونوں کے سینے میں لگیں تھیں۔ 
دونوں جیتے تھے اور دونوں ہارے بھی تھے۔
 امجد کی زبان پر ماریہ کا نام آیا ایک قطرہ آنسو کا نکلا اور کلمہ اس کے ہونٹوں پر تھا۔ 
شاجین اپنی بند ہوتی آنکھوں سے پہلے ہنسا۔
( Anda ternyata menjadi hit )ٹکر کی نکلی تم۔ 
اب دونوں مر چکے تھے۔
 ہر ظالم کو اپنے انجام تک پہنچنا ہوتا ہے۔ دنیا فانی ہے۔ اپنے عمل کا حساب دینا ہے آگے جا کر۔
 آج ایک ظالم مرا تھا اپنے ہی بندے کے ہاتھوں۔
 امجد نے قرض ادا کر دیا تھا آخر ۔
ضیاء نے نکلنے کی ۔۔کی تھی اس سے پہلے کہ وہ مزید پھنستے اور شاجین کے غنڈے گھیرا تنگ کرتے
 ۔پانچ گھنٹے بعد ضیاء نے اپنی پاک زمین پر قدم رکھا۔ اور اب اسکا رخ اپنے گھر کی طرف تھا۔ 
ماریہ بیہوش تھی۔ ایک دفعہ ہوش میں آیی تھی پر ضیاء کو پھر وہی حربہ اختیار کرنا پڑا۔ 
ایک گھنٹہ بعد اب وہ اپنے گھر تھا۔ ماریہ کو بیڈ پر لٹآیا اور نیوز چینل آن کر دیا جہاں خبر جاری تھی ۔ آج  ضیاء سلوٹ کرتا ہے امجد  تمکو۔ ضیاء کے دل میں امجد کے لئے بہت عزت بن گئی تھی۔
ضیاء خوش تھا۔ اسکی موت رائیگاں نہیں گئی تھی امجد بہت لوگوں کی زندگی بچا کر مرا تھا شاجین کو جھنم واصل کر کے۔
 مجہے ماریہ کی حفاظت کرنی ہوگی اور امجد کی باڈی بھی لانی ہے۔سوچ رہا تھا ۔
بہت تکلیف دی تھی اسنے ماریہ کو۔ ڈر تھا کہ پتہ نہیں ماریہ معاف کرے گی یا نہیں ۔
آج وہ صفا کی تصویر لے کر پریشان بیٹھا تھا۔
 جب بھی وہ بات کرتا تھا بدلہ کی کرتا تھا اب اسکو سچائی کا پتہ لگا تو خود سے صفا کی تصویر سے اور خاص کر ماریہ سے بہت شرمندہ تھا۔
 صفا مجہے معاف کر دینا۔غلط فہمی کی وجہ سے سب ہوا پر میں نے بھی تو حد کردی تھی نفرت اور بدلہ میں۔  
 افسران کو پتہ لگ چکا تھا سب ۔انہوں نے ضیاء کو بلوایا تھا۔
 دو گھنٹے تک اب ضیاء ان کے سامنے تھا۔ مبارک دیتے ہیں تمہیں ہم۔ 
ہماری فوج کا نام اور زیادہ روشن ہو گیا ہے۔ اپنا ریزاین واپس لو اور ڈیوٹی جوائن کرو کل سے۔
 یہ ہمارا آرڈر ہے۔
 انہوں نے اٹھ کر ضیاء سے ہاتھ ملایا تھا۔ 
سر امجد کی باڈی لانی ہے۔ضیاء بولا 
 اوکے ہم انتظام کرتے ہیں۔
 تھینکس سر۔ 
 ضیاء گھر واپس آ گیا پھر اسنے ماریہ کے گھر والوں کو سب بتا دیا تھا۔ ماریہ کو لے گیا تھا اس کے گھر اور سب سے معافی مانگی۔
امجد کی باڈی آ چکی تھی ماریہ کو بھی ضیاء لے گیا تھا۔ ماریہ بہت رویی تھی سب یاد کر کے۔ ابھی تو اس کا ساتھ ملا تھا قسمت میں اتنی جلدی بچھڑنا آ گیا۔ 
بہن یہ میرے امجد کی نشانی ہے ہم اکیلے رہ گئے ہیں آپ ماریہ کو ہمارے پاس رہنے دیں امجد کی امی نے منت کی ۔ 
 ماریہ اپنے سسرال رہ گئی تھی۔ پر ہر وقت چپ رہتی۔ ایک دن اسکی طبیعت خراب ہو گئی۔ الٹیاں آ رہی تھیں اور سر چکرا رہا تھا رفعت بیگم اپنی بہو کو ہسپتال لے گیں جہاں خوشی انکی منتظر تھی۔
 میرے امجد کی نشانی میرے بیٹے کی۔ خوشی سے میاں بیوی کے آنسو ہی نہیں رک رہے تھے۔ ماریہ کو جینے کا سہارا مل گیا تھا۔ 
ضیاء ہر تیسرے دن آ کر حال پوچھ جاتا۔ وہ بھی خوش تھا۔ 
ماریہ سے ضیاء نے بات نہیں کی تھی ضیاء میں سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ ضیاء صفا کی یاد میں ہی زندگی کے دن کاٹ رہا تھا۔
اسکو پتہ بھی نہیں چلنے دیا اور ضیاء کے امی ابو ضیاء کا رشتہ لے کر پہنچ گئے ماریہ کے گھر۔ 
بہن ہمیں افسوس ہے پر جوان لڑکی یوں تنہا زندگی کب تک گزارے گی آپ اسکو ہمیں دے دیں ہماری  بیٹی بنا کر۔
 مجہے شادی نہیں کرنی ماں۔ ماریہ رفعت سے بولی۔ 
ضیاء اچھا لڑکا ہے اور یاد کرو امجد نے ضیاء کو تمہارا خیال رکھنے کو کہا تھا۔
ماریہ کا بیٹا پیدا ہوا۔ ضیاء اور سب گھر والے بہت خوش تھے۔ امجد کے امی ابو بھی تھے۔ سب نے مل کر اس کا نام ماجد رکھا۔ صورت میں ہو بہو اپنے باپ پر گیا تھا۔ 
چھ ماہ بعد۔ ۔۔۔۔۔
شادی کی بات دوبارہ ہوئی۔ 
 ماریہ چپ تھی ضیاء کو پتہ لگا تو وہ بھی بولا پر حقیقت سے کون منہ موڑ سکتا ہے۔ پھر چپکے سے ماریہ ضیاء کی سیج پر آ گئی ۔
دونوںخاموش رهتے تھے کیوں کے دونوں حادثے سے گزرے ھوے تھے۔
 ضیاء خاموش رہ کر ماریہ اور بچے  کا ہر لحاظ سے خیال رکھتا تھا۔ 
چار سال بعد 
ڈشوں ڈشوں پستول ہاتھ میں پکڑے بھاگ رہا تھا گولیاں چلاتے ۔ضیاء پاس بیٹھا میرا بیٹا کیا کر رہا ہے۔اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ 
 پاپا میں دشمنوں کو گولی مار رہا ہوں۔
 ہاہاہا۔ میرا بیٹا میری طرح بنے گا۔ ضیاء ماجد کو اٹھا کر ماریہ کے پاس جا بیٹھا۔ ماجد ان میں بیٹھا کھیل رہا تھا۔ 
ضیاء نے ماریہ کے ماتھے پے بوسہ دیا۔
ماجد اپنے دادا دادی سے ملنے جاتا تھا ہر ماہ کچھ دن اپنے امی ابو کے ساتھ۔ 
ماجد امجد کا وارث تھا اور ضیاء کا بیٹا بھی۔ 
خوش تھے سب۔
 اب ضیاء اور ماریہ مکمل زندگی جی رہے تھے۔ 
ختم۔

   0
0 Comments